مانیں کہ آپ کی صحافت گئ تیل لینے !!!!
تسبیحہ زیدی
مجھے نہیں پتہ تھا کہ یہ کمپنی دو نمبر کام کرتی ہے ،، میں تو اس بات کو بالکل نہیں جانتا تھا ،،میں تو اس بارے میں صرف اتنا جانتا تھا کہ یہ ایک آئی ٹی کمپنی ہے جو سوفٹ وئیر بناتی ہے اور آئی ٹی کی دنیا میں ملٹی نیشنل کمپنیون کی فہرست میں اس کا بڑا نام ہے ،،نامور صحافی ایک دوسرے نامور صحافی کو ایگزیکٹ اسکینڈل کا بھانڈا پھوٹنے کے پہلے دن پہلی بار اپنا موقف پاکستان کے سب بڑے چینل پر انتہائی کم اعتمادی کے ساتھ پیش کررہے تھے ۔
وہ کہہ رہے تھے کہ وہ نہیں جانتے تھے ،،لیکن ان کی آواز میں آج وہ اعتماد نہیں تھا ،،ان کی زبان پہلے بھی اٹک جاتی تھی ،،لیکن آج زبان سے نکلتےا لفظ لڑکھڑا رہے تھے ،،،
پچیس سال کی صحافت میں ایک دن بھی کامران خان کو کوئی اس طرح سے نہیں سنتا تھا ،،جس تشفیش میں آج سنا جارہا تھا ،،نیوزروم میں ہر ٹی وی سیٹ کے آگے لوگ کامران خان کو سننے میں منہمک تھے ،، کنٹرول روم میں خاموشی تھی اور ہر کوئی انتظار کررہا تھا کہ آج تک اپنا بھرم قائم رکھنے والا صحافی آج بھی کل کی طرح ہمیں مطمئن جواب دے گا ،، ان لوگوں کے بھروسے پر پورا اترے گا جنہوں نے آج تک اس کی انویسٹی گیٹو رپورٹ پر آنکھ بند کر کے یقین کیا ،،،
لیکن جانے کیوں آج وہ ہی تمام لوگ اسی صحافی کو پرکھ رہے تھے ۔۔۔
صحافی نے سوال جاری رکھے ،،کامران صاحب نے جوابات جاری رکھے ،،پہلے جملے سے آخری جملے تک آتے آتے وہ ایک ایسے جال میں پھنس چکے تھے جس میں پھنسنے کا انتخاب بھی انہوں نے خود کیا تھا ،،، میں بول چھوڑ دوں گا اگر الزامات ایگزیکٹ پر ثابت ہوگئے تو ۔۔۔۔۔یہ ان کے بپیر کا آخری جملا تھا۔
یہ ہی ہے اصل صحافی ،،ان سے ہم کیسے مایوس ہوجائین ،،،زبردست ان سے یہ ہی امید تھی ،نیوز روم میں میں نے ایسی بہت سی آوازیں سنیں،، کامران صاحب کی اسٹوریز سن سن کر رپورٹنگ سیکھنے والوں کے سر ابھی تک بلند تھے ،، لہجے پر اعتماد تھے ،، ہر چینل پر سرخ ٹکر تھا کہ بول کے پریزیڈنٹ نے بولا ہے کہ اصول کی بنیاد پر وہ بول چھوڑ دیں گے ،،
آج میں پھر روزانہ کی طرح آفس آئی ،،میں نے ٹوئٹر کھولا ،،کامران صاھب کو میں فولو کرتی ہوں ٹوئٹر پر ،،لہذا ان کا ٹویٹ سامنے تھا کہ میں کچھ ہی دیر میں اہم فیصلہ کرنے والا ہوں ،، ایگزیکٹ پر الزامات برھتے جارہے تھے ،،بینک اکاونٹ سیز ہونے کا خطرہ تھا ،،ایف آئی اے کی کارروائیاں تیز ہوگئیں تھیں ،میں کامران صاھب کا ٹویٹ دیکھ رہی تھی ،کامران صاحب کا ٹویٹ اس بات کا اشارہ تھا کہ کامران صاحب اس ڈوبتی کشتی سے چھلانگ لگانے والےہیں ،انہوں نے ،اس ٹویٹ میں خود کو معتبرصھافیوں میں شامل کیا تھا ،،
،کامران خان نے بول چھوڑ دیا ،،، دو گھنٹے بعد میرے کانوں میں آواز پڑی ،،، یہ آواز نیوز روم گونجی ،،ایک منٹ کو خاموشی ہوئی اور پھر آوازوں کا وہ سلسلہ شرو ع ہواجو آج تک نہیں رکا ،،، ایگزیکٹ پر الزامات ثابت ہونے لگےہیں ،،میں بول سے علیحدہ ہورہا ہوں ،،،،
دو سال کا صحافتی تجربہ تھا ،آخر سوال کیوں نہ آتا ،۔۔۔۔ زہن چیخا کہ کیا واقعی الزامات کی حقیقت ان پر اب کھلی ہے ۔۔۔۔
دل نے کہا ہاں ،،کامران خان ہیں ، پچیس سال صحافت کی ہے اگر ان کو شبہ بھی ہوتا تو کسیے بول سے بولنے پر راضی ہوتے ،،، لیکن دماغ نے پھر رد کیا ۔۔کیونکہ بول انٹرویو دینے جانے سے پہلے تو یہ بات میں بھی جانتی تھی کہ ایکزیکٹ کا دھندا ہے پر گندا ہے ۔۔۔۔۔۔تو پھر کامران خان کیسے نہیں جانتےتھے ،،،، طلعت میں نہیں جانتا تھا ،،،میں واقعی نہیں جانتا تھا ،،اب مجھے شبہ ہوا تو فورا چھوڑ دیا ،۔۔۔۔ طلعت ۔۔وہ طلعت کو ایک استعفی دینے کے بعد پہلا بیپر دے رہے تھے
آج پھر نیوز روم میں سناٹا تھا ،،،مجھے یاسا لگا رہقا تھا ،،یہ نیوز روم نہیں عدالت ہے جہاں کامران خان کٹہرے میں تھے اور کنٹرول روم میں کھڑے بیس لوگ ان کو مجرم کی نظر سے دیکھ رہے تھے ،،،وہ طلعت حسین کو بیپر میں جانے کیا کیا کہہ رہے تھے ،،،،ان کی آواز خالی تھی اعتماد سے بالکل خالی ،،ان کی الفاظ کھوٹے لگ رہے تھے ،ان کو پنا استاد سمجھنے والے شاگردوں کے سر زمین پر گڑ رہے تھے ،،جو انہیں ممتاز سمجھتا تھا آج اپنے اوپر افسوس کررہا تھا،کسی نے لکھا تھا کہکامران خان جھوٹے نپہیں ہیں الزامت جھوٹے ہیں ،،آج اسی لکھاری کے چہرے پر شکست تھی اپنے جملے کے جھوٹ ثابت ہونے کی شکست!
اور میں کہہ رہی تھی کہ یا تو جرم قبول کریں کامران صاحب کہ پیسے کی چکا چوند نے آپ کو اندھا کردیا تھا ،،، قبولیں یہ بات کہ آپ جانتے تھے دھندا گندا ہے پر اتنا بڑا کوئی پیدا نہیں ہوا جو اس کو روکے ،،جیسے 20 سال سے چل رہا ہے ایسے ہی بیس سال اور کھینچ جائے گا ایگزیکٹ ،میں کیوں اس کی پرواہ کروں جو بھی ایگزیکٹ کرے میں تو بس ایگزیکٹ کے پیسے پر پلنمے والے ادارے بول سے منسلک ہوں،،، کیا ہوا تو یہ پیسہ کالے دھن کو سفید کرنے کے لیے استعمال ہورہے ہین ،،، کیا برا ہے کہ میں سیکیورٹی گارڈز ،،شوفر ،، جم انسٹرکٹر رکھوں اور پہلے سے زیادہ پیسوں میں کھیلوں؟ آخر کیوں میں صحافی کی ھیثیت سے اپنا لائف اسٹینڈرڈ نہ بڑھاووں ،،،
اگر ایسا آپ نے کچھ نہیں سوچا تھا ،،اگر آپ اس کو طیب و طاہر روزی سمجھ رہے تھے ،اگر آپ کو بول جوائن کرتے ہوئے نہیں پتہ تھا کہ یہ حرام کی عمارت ہے ،، تو معذرت سڑکوں پر رپورٹنگ ،،اخباروں کے دھکے اور چینلز سے رپوٹ کرنے والے آپ جیسے 25 سالہ صحافتی تجربہ رکھنے والے صحافی سے مجھے جیسی دو سالہ ٹھنڈے کمرے میں بیٹھ کر خبر بنانے والی نو وارد صحافی کی صحافت اچھی ۔۔۔۔ آپ دھوکا کھا گئے ،،،آپ مانیں کہ آپ کی 25 سالہ صحافت گئ تیل لینے ۔۔۔۔۔ میں آپ کو ٹوئٹر سے ان فولو کررہی ہوں کامران صاحب ،، یقین اٹھ گیا۔۔آپ معتبر نہیں رہے ۔۔۔۔
تسبیحہ زیدی
مجھے نہیں پتہ تھا کہ یہ کمپنی دو نمبر کام کرتی ہے ،، میں تو اس بات کو بالکل نہیں جانتا تھا ،،میں تو اس بارے میں صرف اتنا جانتا تھا کہ یہ ایک آئی ٹی کمپنی ہے جو سوفٹ وئیر بناتی ہے اور آئی ٹی کی دنیا میں ملٹی نیشنل کمپنیون کی فہرست میں اس کا بڑا نام ہے ،،نامور صحافی ایک دوسرے نامور صحافی کو ایگزیکٹ اسکینڈل کا بھانڈا پھوٹنے کے پہلے دن پہلی بار اپنا موقف پاکستان کے سب بڑے چینل پر انتہائی کم اعتمادی کے ساتھ پیش کررہے تھے ۔
وہ کہہ رہے تھے کہ وہ نہیں جانتے تھے ،،لیکن ان کی آواز میں آج وہ اعتماد نہیں تھا ،،ان کی زبان پہلے بھی اٹک جاتی تھی ،،لیکن آج زبان سے نکلتےا لفظ لڑکھڑا رہے تھے ،،،
پچیس سال کی صحافت میں ایک دن بھی کامران خان کو کوئی اس طرح سے نہیں سنتا تھا ،،جس تشفیش میں آج سنا جارہا تھا ،،نیوزروم میں ہر ٹی وی سیٹ کے آگے لوگ کامران خان کو سننے میں منہمک تھے ،، کنٹرول روم میں خاموشی تھی اور ہر کوئی انتظار کررہا تھا کہ آج تک اپنا بھرم قائم رکھنے والا صحافی آج بھی کل کی طرح ہمیں مطمئن جواب دے گا ،، ان لوگوں کے بھروسے پر پورا اترے گا جنہوں نے آج تک اس کی انویسٹی گیٹو رپورٹ پر آنکھ بند کر کے یقین کیا ،،،
لیکن جانے کیوں آج وہ ہی تمام لوگ اسی صحافی کو پرکھ رہے تھے ۔۔۔
صحافی نے سوال جاری رکھے ،،کامران صاحب نے جوابات جاری رکھے ،،پہلے جملے سے آخری جملے تک آتے آتے وہ ایک ایسے جال میں پھنس چکے تھے جس میں پھنسنے کا انتخاب بھی انہوں نے خود کیا تھا ،،، میں بول چھوڑ دوں گا اگر الزامات ایگزیکٹ پر ثابت ہوگئے تو ۔۔۔۔۔یہ ان کے بپیر کا آخری جملا تھا۔
یہ ہی ہے اصل صحافی ،،ان سے ہم کیسے مایوس ہوجائین ،،،زبردست ان سے یہ ہی امید تھی ،نیوز روم میں میں نے ایسی بہت سی آوازیں سنیں،، کامران صاحب کی اسٹوریز سن سن کر رپورٹنگ سیکھنے والوں کے سر ابھی تک بلند تھے ،، لہجے پر اعتماد تھے ،، ہر چینل پر سرخ ٹکر تھا کہ بول کے پریزیڈنٹ نے بولا ہے کہ اصول کی بنیاد پر وہ بول چھوڑ دیں گے ،،
آج میں پھر روزانہ کی طرح آفس آئی ،،میں نے ٹوئٹر کھولا ،،کامران صاھب کو میں فولو کرتی ہوں ٹوئٹر پر ،،لہذا ان کا ٹویٹ سامنے تھا کہ میں کچھ ہی دیر میں اہم فیصلہ کرنے والا ہوں ،، ایگزیکٹ پر الزامات برھتے جارہے تھے ،،بینک اکاونٹ سیز ہونے کا خطرہ تھا ،،ایف آئی اے کی کارروائیاں تیز ہوگئیں تھیں ،میں کامران صاھب کا ٹویٹ دیکھ رہی تھی ،کامران صاحب کا ٹویٹ اس بات کا اشارہ تھا کہ کامران صاحب اس ڈوبتی کشتی سے چھلانگ لگانے والےہیں ،انہوں نے ،اس ٹویٹ میں خود کو معتبرصھافیوں میں شامل کیا تھا ،،
،کامران خان نے بول چھوڑ دیا ،،، دو گھنٹے بعد میرے کانوں میں آواز پڑی ،،، یہ آواز نیوز روم گونجی ،،ایک منٹ کو خاموشی ہوئی اور پھر آوازوں کا وہ سلسلہ شرو ع ہواجو آج تک نہیں رکا ،،، ایگزیکٹ پر الزامات ثابت ہونے لگےہیں ،،میں بول سے علیحدہ ہورہا ہوں ،،،،
دو سال کا صحافتی تجربہ تھا ،آخر سوال کیوں نہ آتا ،۔۔۔۔ زہن چیخا کہ کیا واقعی الزامات کی حقیقت ان پر اب کھلی ہے ۔۔۔۔
دل نے کہا ہاں ،،کامران خان ہیں ، پچیس سال صحافت کی ہے اگر ان کو شبہ بھی ہوتا تو کسیے بول سے بولنے پر راضی ہوتے ،،، لیکن دماغ نے پھر رد کیا ۔۔کیونکہ بول انٹرویو دینے جانے سے پہلے تو یہ بات میں بھی جانتی تھی کہ ایکزیکٹ کا دھندا ہے پر گندا ہے ۔۔۔۔۔۔تو پھر کامران خان کیسے نہیں جانتےتھے ،،،، طلعت میں نہیں جانتا تھا ،،،میں واقعی نہیں جانتا تھا ،،اب مجھے شبہ ہوا تو فورا چھوڑ دیا ،۔۔۔۔ طلعت ۔۔وہ طلعت کو ایک استعفی دینے کے بعد پہلا بیپر دے رہے تھے
آج پھر نیوز روم میں سناٹا تھا ،،،مجھے یاسا لگا رہقا تھا ،،یہ نیوز روم نہیں عدالت ہے جہاں کامران خان کٹہرے میں تھے اور کنٹرول روم میں کھڑے بیس لوگ ان کو مجرم کی نظر سے دیکھ رہے تھے ،،،وہ طلعت حسین کو بیپر میں جانے کیا کیا کہہ رہے تھے ،،،،ان کی آواز خالی تھی اعتماد سے بالکل خالی ،،ان کی الفاظ کھوٹے لگ رہے تھے ،ان کو پنا استاد سمجھنے والے شاگردوں کے سر زمین پر گڑ رہے تھے ،،جو انہیں ممتاز سمجھتا تھا آج اپنے اوپر افسوس کررہا تھا،کسی نے لکھا تھا کہکامران خان جھوٹے نپہیں ہیں الزامت جھوٹے ہیں ،،آج اسی لکھاری کے چہرے پر شکست تھی اپنے جملے کے جھوٹ ثابت ہونے کی شکست!
اور میں کہہ رہی تھی کہ یا تو جرم قبول کریں کامران صاحب کہ پیسے کی چکا چوند نے آپ کو اندھا کردیا تھا ،،، قبولیں یہ بات کہ آپ جانتے تھے دھندا گندا ہے پر اتنا بڑا کوئی پیدا نہیں ہوا جو اس کو روکے ،،جیسے 20 سال سے چل رہا ہے ایسے ہی بیس سال اور کھینچ جائے گا ایگزیکٹ ،میں کیوں اس کی پرواہ کروں جو بھی ایگزیکٹ کرے میں تو بس ایگزیکٹ کے پیسے پر پلنمے والے ادارے بول سے منسلک ہوں،،، کیا ہوا تو یہ پیسہ کالے دھن کو سفید کرنے کے لیے استعمال ہورہے ہین ،،، کیا برا ہے کہ میں سیکیورٹی گارڈز ،،شوفر ،، جم انسٹرکٹر رکھوں اور پہلے سے زیادہ پیسوں میں کھیلوں؟ آخر کیوں میں صحافی کی ھیثیت سے اپنا لائف اسٹینڈرڈ نہ بڑھاووں ،،،
اگر ایسا آپ نے کچھ نہیں سوچا تھا ،،اگر آپ اس کو طیب و طاہر روزی سمجھ رہے تھے ،اگر آپ کو بول جوائن کرتے ہوئے نہیں پتہ تھا کہ یہ حرام کی عمارت ہے ،، تو معذرت سڑکوں پر رپورٹنگ ،،اخباروں کے دھکے اور چینلز سے رپوٹ کرنے والے آپ جیسے 25 سالہ صحافتی تجربہ رکھنے والے صحافی سے مجھے جیسی دو سالہ ٹھنڈے کمرے میں بیٹھ کر خبر بنانے والی نو وارد صحافی کی صحافت اچھی ۔۔۔۔ آپ دھوکا کھا گئے ،،،آپ مانیں کہ آپ کی 25 سالہ صحافت گئ تیل لینے ۔۔۔۔۔ میں آپ کو ٹوئٹر سے ان فولو کررہی ہوں کامران صاحب ،، یقین اٹھ گیا۔۔آپ معتبر نہیں رہے ۔۔۔۔